ملک میں بجلی کی پیداوار کا شعبہ اور عوام کو بجلی کی فراہمی حکومت کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ عوام ایک طرف مہنگی بجلی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں اور دوسری طرف بجلی کی چوری حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ اور اس پر سبسڈی سرکاری خزانے پر بوجھ ہے۔
بجلی کے شعبے میں اصلاحات کا عمل 1992ء کی پاور پالیسی سے شروع ہوا۔ مگر بیورو کریسی کی عدم دل چسپی کی وجہ سے یہ عمل آج تک مکمل نہیں ہوسکا۔ اس ضمن میں متعدد فیصلے اور چند اقدامات کے باوجود بجلی کا شعبہ آج بھی وہ اصلاحات چاہتا ہے جن سے عوام کو سہولت ملے اور حکومت بھی اس سے متعلق مسائل سے جان چھڑا سکے۔ ان اصلاحات میں بجلی کے شعبے میں ریگولیٹر کا قیام، واپڈا کو تقسیم کرنے، بجلی کی خریدو فروخت کی مارکیٹ کے قیام کے علاوہ ٹیرف میں بنیادی اصلاحات شامل تھیں۔
اب بجلی کے بلوں کو ہی دیکھ لیں جس کا ٹیرف ساٹھ کی دہائی میں وضع کیا گیا تھا جس میں زیادہ بجلی کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ٹیرف کو بڑھایا گیا۔ اور انہیں کم بجلی استعمال کرنے والے صارف سے مہنگی بجلی فراہم کی جارہی تھی۔ یعنی طبقۂ امراء کو مہنگی بجلی دے کر اس کا فائدہ کم بجلی استعمال کرنے والوں کو پہنچایا جائے۔ یہ کچھ رابن ہڈ اسٹائل طرز کا بجلی کا ٹیرف تھا۔ کچھ عرصہ تو یہ کام چلا مگر جب ملک میں بجلی کی پیداوار کا انحصار ہائیڈرو پاور پر تھا۔ جب سے پیٹرولیم ایندھن پر چلنے والے پلانٹس نجی شعبے میں لگے تو بجلی تیزی سے مہنگی ہونا شروع ہوئی اور اس مہنگائی کی وجہ سے کراس سبسڈی میں فرق بڑھتا گیا۔ اور طبقۂ امراء کے بجائے یہ بوجھ حکومتی خزانے پر پڑنے لگا۔
اس وقت بجلی کا اوسط ٹیرف 34 روپے ہے۔ صارفین جو 50 یونٹ تک استعمال کرتے ہیں۔ انہیں 3.95 روپے اور جو 100 یونٹ تک استعمال کرتے ہیں انہیں 7.74 روپے فی یونٹ پڑتا ہے۔ یہ لائف لائن صارفین ہیں۔ جب کہ ایک سو سے دو سو یونٹ استعمال کرنے والوں کی دو طرح کی درجہ بندی ہے۔ ایک سے 10.54 روپے، جب کہ دوسرے گروپ سے 13.01 روپے فی یونٹ بل لیا جاتا ہے۔ اسی طرح گھریلو نان پروٹیکٹڈ صارف جو کہ ایک سو یونٹ تک استعمال کرتا ہے۔ اس سے 22.44 روپے، تین سو یونٹ تک والوں سے 33.10 روپے، چار سو یونٹ استعمال کرنے والوں سے 37.99 روپے، پانچ سو یونٹ والوں سے 40.22 روپے، چھ سویونٹ والوں سے 41.62 روپے، سات سو یونٹ والوں سے 42.76 روپے فی یونٹ بجلی کا بل وصول کیا جاتا ہے۔
اس وقت لائف لائن صارفین کی تعداد مجموعی صارفین کا چار فیصد ہے مگر وہ ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کا صرف ایک فیصد استعمال کرتے ہیں۔ دو سو یونٹ تک کے پروٹیکٹڈ صارفین کی تعداد 49 فیصد ہے اور وہ مجموعی بجلی کا سولہ فیصد استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح 53 فیصد صارفین تقریبا 18 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اور انہی صارفین کو ٹیرف ڈیفرنشل سبسڈی اور کراس سبسڈی دی جاتی ہے۔
مگر پاکستانیوں نے اس نظام کو بھی دھوکہ دینے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اب اگر یہ مان لیں ایک فرد کے بجلی کا صرف چار سو یونٹ تک ہے تو صارفین کی بڑی تعداد نے گھروں میں ایک سے زائد میٹرز لگوائے ہوئے ہیں اور ان کا بجلی کا بل دو میٹروں پر تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان کو فی یونٹ بجلی 37.99 روپے کے بجائے 28.91 روپے میں ملے گی جس سے فی یونٹ بچت تقریباً دس روپے بنتی ہے۔
آئی ایم ایف جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ متعدد متمول صارفین نے اپنے گھروں پر ایک سے زائد میٹر لگوائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے امیر اور پوش علاقوں میں رہنے والے صارفین بھی سبسڈی حاصل کر رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سبسڈی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ محض بجلی کے استعمال پر کیا جاتا ہے۔ صارف کہاں رہتا ہے اور اس کا معاشی درجہ کیا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اور جنہوں نے اپنے گھروں پر ایک ہی میٹر لگوایا ہوا ہے۔ انہیں بھاری بھرکم بلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب وہ صارفین جو متعدد میٹروں کے ساتھ سستی بجلی حاصل کررہے تھے، اب وہ اس سے محروم ہونے جارہے ہیں۔
حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے پروگرام کے تحت 1.4 ارب ڈالر کا قرض لیا ہے۔ اسی پروگرام میں حکومت سے کئی اصلاحات کا بھی وعدہ لیا گیا ہے جس میں بجلی کے بلوں پر دی جانے والی کراس سبسڈی اور ٹیرف ڈیفرنشل سبسڈی شامل ہے۔ اور اب پاکستان میں ساٹھ کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ بجلی ٹیرف کے بنیادی فلسفے کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ یعنی اس وقت رائج نظام میں زائد بجلی استعمال کرنے والوں کو مہنگی اور کم بجلی استعمال کرنے والوں سستی بجلی دی جاتی ہے۔ مگر اب یہ فرق ختم کر دیا جائے گا۔
اس طرح اب کوئی بھی صارف بجلی کا ایک یونٹ استعمال کرے یا ایک ہزار یونٹ اس کا فی یونٹ بل ایک ہی چارج ہوگا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی چکّی میں پس رہے ہیں انہیں مزید بوجھ سے چھٹکارا کیسے دلوایا جائے گا۔ اس کا جواب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت پروٹیکٹڈ اور لائف لائن صارفین کو حکومت مالیاتی سپورٹ فراہم کرے گی جس سے انہیں بلز میں کسی قدر رعایت بہرحال ملے گی۔ البتہ وہ صارفین جو زائد میٹر لگوا کر سستی بجلی کے مزے لوٹ رہے تھے ان کا بل بڑھ جائے گا جب کہ سات سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کا بل کم ہوجائے گا۔ اس طرح کم بجلی کے استعمال کے بجائے ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق بجلی استعمال کرے گا۔ اور حکومت کو بھی بجلی کی فروخت میں ہونے والا نقصان گھٹانے میں مدد ملے گی۔
دوسری طرف معاشی ماہرین اس سے بڑھ کر ایک حل پیش کرتے ہیں۔ سسٹین ایبل ڈویلیپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید کا کہنا ہے کہ حکومت لائف لائن صارفین کو ماہانہ سبسڈی دینے کے بجائے انہیں سولر پینل فراہم کرے جس سے ان کا مہنگی بجلی پر انحصار نہیں رہے گا اور ان کی بجلی کے بلوں سے جان چھوٹ جائے گی۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ تو کر لیا ہے، مگر اس پر عمل درآمد میں پندرہ ماہ سے زائد کا عرصہ لگے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے اصلاحات کے ایجنڈے پر عملی کام جاری رکھتی ہے یا نہیں۔ بہرحال، یہ بجلی کی فروخت میں حکومتی نقصان کو پورا کرنے کی ایک اچھی کاوش تو ہو سکتی ہے مگر اسے قابلِ عمل بنانے اور درست طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔
